سوئی، قینچی
کہانی کار:پیرزادہ مدثریوسف پاشا ؔ
ڈاکٹر ایوب اپنے وقت کاماناہواسرجن تھا سرجری کے شعبہ میں اس جیسے کامیاب اورماہر لوگ بہت کم تھے اپنے ملک سے سرجری کاکورس کرنے کے بعد اس نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے شوق نے اسے بیرون ملک سے اپنے شعبہ میں اعلیٰ تعلیمی ڈگری لینے پرمجبور کردیا۔ڈاکٹر ایوب کاشوق بڑھتے بڑھتے جنون کی حد تک پہنچ گیا ویسے تو اس کی ڈیوٹی شہر کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں تھی لیکن اس کی مہارت کی وجہ سے پرائیویٹ ہسپتالوں کی انتظامیہ بھی دیدہ ودل فرش راہ کیے اس کاانتظارکرتی رہتی تھی۔ وہ جس پیچیدہ سے پیچیدہ آپریشن کی حامی بھرلیتا اسے سو فی صد کامیاب کرکے دکھاتا۔ گو کہ اس نے اپنی کامیابی کے لیے اصل سہارا اللہ کو جان کراسی کے بھروسے آپریشن کرناہوتاتھا لیکن اس کااپنے رب پر اٹوٹ یقین بالاخراسے کامیابی سے ہمکنار کرتا اور شہر بھر میں اس کی دھوم تھی۔ لیکن ڈاکٹر ایوب کی موجودہ شہرت او ر رکھ رکھاؤ دیکھ کرلوگ اسے کسی نہایت امیر باپ کابیٹا سمجھتے تھے مگر بہت کم لوگ اس کی اصلیت سے واقف تھے کہ اس کی کامیابی کے پیچھے اس کے نیک نیت بوڑھے باپ لال دین کاہاتھ تھا۔
لال دین مستری تھا لوگوں کی چارپائیاں جوڑنا،گری ہوئی دیواریں تعمیرکرنا اس کا کئی نسلوں سے پیشہ تھا۔ اس نے ہمیشہ اپنے والد سے ایک ہی سبق سناتھا لال دین! بیٹا! ہمیشہ سوئی بننا،دیکھو ساری دنیا سوئی کو کتنا حقیر جانتی ہے لیکن لوگ اس کی عظمت کو بھول جاتے ہیں سوئی بے شک چھوٹی ہے لیکن ہمیشہ جوڑنے کاکام کرتی ہے۔ ٹوٹے پھٹے کپڑے جوڑتی ہے،پھٹے زخموں کاپھایا بننے میں مدددیتی ہے کسی کی دل آزاری نہیں کرتی۔ دوسری طرف قینچی کودیکھو جوسوئی سے سینکڑوں گنا بڑی ہوتی ہے لیکن ہمیشہ علیحدہ کرنے اور توڑنے کاکام کرتی ہے۔ چیرڈالتی ہے، تقسیم کرتی ہے لہٰذاتم کبھی بھی قینچی نہ بننا بس ننھی سی حقیر سوئی بننا۔ لال دین نے اپنے باپ کی نصیحت کوایسے پلے باندھا کہ دلوں کوجوڑنے،کام آنے، ہمدردی کرنے اور پھاہا بننے کواس نے اپنانصب العین بنالیا۔ راج مستری ہوتے ہوئے بھی وہ ہرگز مستری نہیں تھا اس نے کبھی بھی مجبور اور بے سہارا لوگوں سے کسی قسم کی اجرت طلب نہ کی تھی۔ وہ مہینوں سخت مشقت کرکے کام مکمل کرتا ادھر ڈاکٹر ایوب کی والدہ اس انتظارمیں ہوتی کہ اب کی بار ملنے والی مزدوری سے شاید گھر کاچولہا کچھ دنوں متواتر اور مسلسل چلنے لگے لیکن لال دین ہمیشہ کی طرح مفت کام کرکے واپس آتا اور نیک بخت اس سے جرح کرتی تو اس کاایک ہی جواب ہوتا ”میں سوئی ہوں،ہاں سوئی جس کے پاس کبھی دھاگا بھی نہیں رہا۔“
وقت کی گاڑی یونہی چلتی رہی اورپھر اللہ نے لال دین اور نیک بخت کے نصیب ایوب کی صورت میں جگادئیے بیٹے کی پیدائش پر لال دین نے جی بھر کراپنے کریم اور رحیم رب کا شکر ادا کیا اور ایک دن جیسے اسے سوئی،قینچی کی اصلیت سمجھ آگئی۔ اس نے پالنے میں پڑے ننھے ایوب کو ڈاکٹر بناکرانسانیت کے لیے صحیح معنوں میں سوئی بنانے کافیصلہ کرلیا۔ گو کہ اسے اپنی کم مائیگی اور غربت کاتو احساس تھا لیکن رب سے مایوس ہوناتو گویااس نے سیکھاہی نہیں تھا۔ اسی نیت کے ساتھ اس نے اپنے بیٹے کی پرورش کرناشروع کی اس کے عزم میں پختگی اسو قت آئی جب نیک بخت اپنڈکس کی وجہ سے گاؤں میں ہی تڑپ تڑپ کرمرگئی۔ اس واقع نے فرمانبردار ایوب کو اپنے باپ کے مشن پر مرمٹنے والابنادیا۔ باپ کی نیک نیتی رنگ لائی اور بیٹے نے ایف ایس میں بورڈ ٹاپ کرلیا صرف یہی نہیں بلکہ حکومت نے اپنے خرچ پر اسے ڈاکٹر بنانے کافیصلہ کرلیا۔
اس خوشخبری نے لال دین کی امنگوں کو جوان کردیااس کی آنکھوں میں کئی قسم کے سپنے دیپ بن کرجلنے لگے۔ بوڑھے لال دین نے اپنے بیٹے میں سوئی بننے کی عملی صلاحیتیں کئی بار دیکھ لیں تھیں جب وہ اپنے ہم جولیوں کی چھوٹی چھوٹی رنجشوں پر انہیں راضی کرتا اور انہیں ایک تسبیح میں پروتانظر آتا۔ وقت نے بھلاکب کسی کاانتظار کیاہے وہ اپنی مخصوص رفتار سے چلتارہا ادھر بوڑھے راج مستری لال دین کابیٹا سرجن بن کرآگیا۔اس دن لال دین کی خوشی دیدنی تھی اس نے سجدے میں گر کراپنے کریم اور رب کی اس عطاپرجی بھرکرشکراداکی تبھی اس کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی کاش! آج ایوب کی والدہ زندہ ہوتی تو میں اسے بتاتا کہ سوئی کے سپنے نے تعبیر پالی ہے۔ ڈاکٹر ایوب نے سرکاری نوکری جوائن کی اور پہلے دن سے ہی اپنے باپ کے سوئی بننے کے خواب کوعملی جامہ پہنانا شروع کردیا پھر کچھ ہی سالوں میں اس کی خداخوفی، خدا ترسی کے تذکرے زبان زدعام ہوگئے۔
اس دورانیے میں بوڑھا لال دین صرف بستر کاہوکررہ گیا۔ اس دن ڈاکٹر ایو ب گھرپرتھا ڈاکٹرز کی ہڑتال کی وجہ سے اسے چھٹی تھی وہ حسب معمول اپنے والد کے پاؤں دبارہاتھا اس کے والد ڈاکٹر وں کی ہڑتال کے سخت خلاف تھے کیونکہ بقول ان کے اس سے کئی مریض اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد مین گیٹ پر بیل ہوئی گیٹ کھلتے ہی ایک بوڑھی عورت کے رونے کی آواز آنے لگی وہ ابھی ڈاکٹر سے ملنے کی ضدکررہی تھی کیونکہ اس کااکلوتاجواں سال بیٹا زندگی اورموت کی کشمکش میں مبتلاتھا۔ ڈاکٹرایوب نے بڑھیاکو ساتھ بٹھایا اور راستے سے اس کے بیٹے کواپنے ذاتی ہسپتال لے گیا جہاں کاسٹاف ارجنٹ کال پر تیارتھا مریض کوفوراً آپریشن تھیٹر لے جایاگیا
جہاں کئی گھنٹوں کی طویل جدوجہد کے بعد بالآخر اس کامیاب آپریشن ہوگیا آپریشن سے لے کرمکمل صحت مندہونے تک کے تمام اخراجات بالکل مفت تھے۔ اسی شام جب ڈاکٹرایوب اپنے بوڑھے باپ لال دین کو یہ واقع سنارہاتھا تو لال دین کی آنکھو ں سے خوشی کے آنسو تھمنے کانام نہیں لے رہے تھے۔ پھر لال دین نے دعامانگی! الہٰی سارے ڈاکٹرز کو سوئی بنادے،جوڑنے والی۔ تبھی آج پہلی دفعہ ڈاکٹر ایوب کواپنے والد کی عظمت اور سوئی،قینچی کے فرق کااحساس اس شدت سے ہوا کہ اس نے بے اختیار اٹھ کراپنے والد کے پاؤں چومنے شروع کردئیے۔